نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے
by رشید لکھنوی

نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے
غضب کر چلے مہرباں چلتے چلتے

کہیں گے کچھ اے باغباں چلتے چلتے
اگر دے گی یارا زباں چلتے چلتے

گرے ہم پس کارواں چلتے چلتے
تھکے پاؤں اپنے کہاں چلتے چلتے

تری چال باد خزاں نے اڑائی
اجاڑا مرا آشیاں چلتے چلتے

کرو آنکھیں جھپکا کے ترچھی نگاہیں
سنانیں چلیں برچھیاں چلتے چلتے

بھریں سرد آہیں جو گرم آہ بھر کے
نسیم آئی باد خزاں چلتے چلتے

نہ گھبرا ذرا دامن روز محشر
کروں گا تری دھجیاں چلتے چلتے

عدم کو چلے قید زلف صنم میں
رہیں پاؤں میں بیڑیاں چلتے چلتے

دم نزع سر پر گرے کوہ الفت
اٹھائیں بڑی سختیاں چلتے چلتے

مری لاش کو پاؤں سے خوب روندا
تھمے صورت آسماں چلتے چلتے

بس اب تو عدم میں ملاقات ہوگی
یہ کہتے گئے رفتگاں چلتے چلتے

نہ قاتل نے تیغ نگہ تک لگائی
نہ کرتا گیا امتحاں چلتے چلتے

جہاں سے گئے حشر تک خوب سوئے
لیا ساتھ خواب گراں چلتے چلتے

رہے عمر بھر تیری وحدت کے قائل
نہ لیں ہم نے دو ہچکیاں چلتے چلتے

رشیدؔ حزیں لاکھ روکا کیے ہم
وہ لیتے گئے نقد جاں چلتے چلتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse