نہ پہنچا ساتھ یارانۂ سفر کی ناتوانی سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پہنچا ساتھ یارانۂ سفر کی ناتوانی سے
by طالب علی خان عیشی

نہ پہنچا ساتھ یارانۂ سفر کی ناتوانی سے
میں سر پٹکا کیا اک عمر سگ سخت جانی سے

ادا فہمان شوق وصل ہو طور تجلی پر
مزہ دیدار کا ملتا ہے بانگ لن ترانی سے

مرید مرشد ہمت ہوں میں میری طریقت میں
کفن بھی ساتھ لانا ننگ ہے دنیائے فانی سے

وہ سرگرم بیان سوزش داغ محبت ہوں
حضر کرتا ہے شعلہ بھی مری آتش بیانی سے

ہمارے غنچۂ دل کو تبسم کی نہ دی فرصت
رہا ہم کو یہ شکوہ لطمۂ باد خزانی سے

شراب عشق کا ساغر دیا ہے مجھ کو ساقی نے
نہ اٹھوں گا میں محشر کو بھی اپنی سرگرانی سے

ہمیں وہ راہ بتلائی ہے خضر عشق نے عیشیؔ
نشان رفتگاں پیدا ہے جس میں بے نشانی سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse