نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
by غمگین دہلوی

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
امید وصل ہی پر ان دنوں گزارا ہے

نہ دیکھوں تجھ کو تو آتا نہیں کچھ آہ نظر
تو میری پتلی کا آنکھوں کی یار تارا ہے

مجھے جو بام پہ شب کو بلائے ہے وہ ماہ
مگر عروج پہ کیا ان دنوں ستارا ہے

یقین جان تو واعظ کہ دین و دنیا میں
بس اس کی صرف مجھے ذات کا سہارا ہے

عجب طرح سے نظر پڑ گیا مرے ہمدم
قیامت آہ وہ مکھڑا بھی پیارا پیارا ہے

مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے
نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

کہا جو میں نے پلاتے ہو بزم میں سب کو
مگر ہمیں ہی نہیں کیا گنہ ہمارا ہے

تو بولے وہ کہ جسے چاہیں ہم پلائیں شراب
خوشی ہماری ترا اس میں کیا اجارا ہے

گیا وہ پردہ نشیں جب سے اپنے گھر غمگیںؔ
تمام خلق سے دل کو مرے کنارا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse