نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے  (1937) 
by شرف مجددی

نہ پوچھو شب وصل کیا ہو رہا ہے
گلے میں ہیں بانہیں گلا ہو رہا ہے

وہ اٹھلا کے میری طرف آ رہے ہیں
قیامت کا وعدہ وفا ہو رہا ہے

گلے پر جو رک رک کے چلتا ہے خنجر
یہ پورا مرا مدعا ہو رہا ہے

مری بے خودی پر نظر کیا ہو اس کو
وہ خود محو ناز و ادا ہو رہا ہے

وہ ہمراہ لے کر گئے ہیں عدو کو
ذرا ہم بھی دیکھ آئیں کیا ہو رہا ہے

تجاہل نے ان کے ہمیں مار ڈالا
جب آتے ہیں کہتے ہیں کیا ہو رہا ہے

شرفؔ تم نے بدنام اسے کر کے چھوڑا
یہی ذکر اب جا بجا ہو رہا ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse