نہ پوچھو تم کو اور دشمن کو دل میں کیا سمجھتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پوچھو تم کو اور دشمن کو دل میں کیا سمجھتا ہوں
by بوم میرٹھی

نہ پوچھو تم کو اور دشمن کو دل میں کیا سمجھتا ہوں
اسے الو تمہیں الو کا میں پٹھا سمجھتا ہوں

ڈروں کیوں وصل کی شب دھول دھپا ہاتھا پائی سے
اسے تو میں نیاز و ناز کا رگڑا سمجھتا ہوں

گیا بچپن شباب آیا بڑھاپا آنے والا ہے
مگر میں تو ابھی تک آپ کو بچہ سمجھتا ہوں

لیے جاتا ہے مجھ کو ساتھ کیوں دشمن کی محفل میں
ابے الو کے پٹھے اس میں کچھ دھوکا سمجھتا ہوں

بلاتی ہے مجھے گھر پر جو تم گھر پر نہیں ہوتے
تمہاری ماں کو تم سے ہر طرح اچھا سمجھتا ہوں

عدو کے گھر سے الٹا پائجامہ پہن کر آئے
اندھیری رات ہے کچھ دال میں کالا سمجھتا ہوں

یہ تم نے کیا کہا کیوں دل لگی کی میری اماں سے
اجی توبہ کرو میں تو اسے خالہ سمجھتا ہوں

جو پوچھا مجھ سے مشت خاک کو تم کیا سمجھتے ہو
تو فرمایا کہ استجنے کا میں ڈھیلا سمجھتا ہوں

شب وعدہ تیری لوٹ و پلٹ سے ناک میں دم ہے
کبھی الٹا سمجھتا ہوں کبھی سیدھا سمجھتا ہوں

کسی نے ان سے پوچھا بومؔ کو تم کیا سمجھتے ہو
تو بولے مسکرا کر الو کا پٹھا سمجھتا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse