نہ پایا کھوج برسوں نقش پائے رفتگاں ڈھونڈھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پایا کھوج برسوں نقش پائے رفتگاں ڈھونڈھے
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

نہ پایا کھوج برسوں نقش پائے رفتگاں ڈھونڈھے
نہ ہو ممکن پتا جن کا انہیں کوئی کہاں ڈھونڈھے

تلاش اس طرح بزم عیش میں ہے بے نشانوں کی
کوئی کپڑے میں جیسے زخم سوزن کا نشاں ڈھونڈھے

ہم اس کے ذکر ہی سے خوش کیا کرتے ہیں دل اپنا
سہارا جیسے تنکے کا غریق نیم جاں ڈھونڈھے

کدھر کو روٹھ کر جاتا رہا عہد شباب اپنا
نہ پایا اس مسافر کو ہزاروں کارواں ڈھونڈھے

اٹھانا ہو سبک آدم پہ جب بار امانت کا
کہاں سے پھر کوئی اس کے لیے بار گراں ڈھونڈھے

گرہ سانسوں میں ڈالی ہے ہوسؔ افراط گریہ نے
نہ آہ ناتواں آنے کو لب تک نردباں ڈھونڈھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse