نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا
by شاہ مبارک آبرو

نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا
چلا جاوے اگرچہ رووتا محشر تلک دریا

کہاں ایسا مبکی ہو کہ جاوے تا فلک دریا
نہیں ہم چشم میرے اشک کا مارے ہے جھک دریا

ہوا ہے چشم حیرت دیکھ تیری آب رفتاری
کنارے نہیں رہا ہے کھول ان دونوں پلک دریا

بھر آوے آب حسرت اس کے منہ میں جب لہر آوے
اگر دیکھے ترے ان نرم گالوں کے تھلک دریا

نہیں ہیں یہ حباب آتے ہیں جو نظروں میں مردم کی
جلن مجھ اشک کی سیں دل میں رکھتا ہے پھلک دریا

اگر ہو کوہ تو ریلے سیں اس لشکر کے چل جاوے
کہاں سکتا ہے مجھ انجھواں کی فوجاں سیں اٹک دریا

اثر کرنے کا نہیں سنگیں دلاں میں روونا ہرگز
کرارے سخت ہیں بے جا رہا ہے سر پٹک دریا

یقیں آیا کیا جب اس کے تئیں پانی سیں بھی پتلا
ہمارے اشک کی گرمی میں کچھ رکھتا تھا شک دریا

نہیں ممکن ہمارے دل کی آتش کا بجھا سکنا
کرے گر ابر طوفاں خیز کوں آ کر کمک دریا

نہ ہووے آبروؔ خانہ خرابی کیوں کہ مردم کی
کیا انجھواں میں میرے اب سما سیں تا سمک دریا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse