نہ ٹوکو دوستو اس کی بہار نام خدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ٹوکو دوستو اس کی بہار نام خدا
by نظیر اکبر آبادی

نہ ٹوکو دوستو اس کی بہار نام خدا
یہی اب ایک ہے یاں گلعذار نام خدا

یہ وہ صنم ہے پری رو کہ جس پہ ہوتی تھیں
ہزار جان سے پریاں نثار نام خدا

اسی صنم کی نگاہوں کی برچھیاں یارو
ہوئی ہیں میرے کلیجے کے پار نام خدا

اسی کے نشتر مژگاں میں اب وہ تیزی ہے
کہ جس سے ہوتے ہیں ہم دل فگار نام خدا

اسی صنم کے رخ و زلف کے تصور میں
ہماری گزرے ہے لیل و نہار نام خدا

گلی میں کوچہ و بازار میں ہم اب دن رات
اسی کے واسطے پھرتے ہیں خوار نام خدا

اسی کے سر کی قسم ہے کہ ہم تو مر جاتے
اگر نہ ہوتا یہ گل رو نگار نام خدا

بنے ہیں یاں جو کئی دیر اور صنم خانے
ادھر جو جو ہوتا ہے اس کا گزار نام خدا

اٹھا کے سینہ جھٹک بازو اور بنا کر دھج
چلے ہے جس گھڑی ٹھوکر کو مار نام خدا

قدم قدم پہ برہمن کہیں ہیں بسم اللہ
صنم بھی کہتے ہیں سب بار بار نام خدا

غرض جدھر کو نکلتا ہے یہ تو ہر اک کے
زباں سے نکلے ہے بے اختیار نام خدا

نظیرؔ ایک غزل اور کہہ کہ تیرے سخن
ہیں اب تو سب گہر آب دار نام خدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse