نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا
by میر مہدی مجروح

نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا
وہ اب پہلا سا ہنگامہ نہیں ہے بے قراری کا

طلب کیسی بلانا کیا وہاں خود جا پہنچتے ہیں
اگر عالم یہی چندے رہا بے اختیاری کا

وہاں وہ ناز و عشوے سے قدم گن گن کے رکھتے ہیں
یہاں اس منتظر کا وقت پہنچا دم شماری کا

کبھی چشم خمار آلود کی مستی نہیں دیکھی
بجا ہے حضرت ناصح کو دعویٰ ہوشیاری کا

بھلا کیا ایسی روتی شکل پاس آ کر کوئی بیٹھے
اٹھے آخر وہ جھنجھلا کر برا ہو اشک باری کا

عجب کیا ہے کہ قاصد بھول جائے اس کا لے جانا
لکھوں جس نامے میں شکوہ تری غفلت شعاری کا

مثال نخل دیکھا ہے اسی کو پھولتے پھلتے
کیا جس شخص نے حاصل طریقہ خاکساری کا

ہر اک شے کا ہے اندازہ مگر پایاں نہیں ہرگز
تری غفلت شعاری کا مری امیدواری کا

ز بس آنکھوں میں رنگت چھا رہی ہے لالہ و گل کی
خزاں میں لطف آتا ہے ہمیں فصل بہاری کا

کبھی سر پاؤں پر رکھنا کبھی قربان کہہ اٹھنا
ہمیں تھوڑا سا ڈھب آتا تو ہے مطلب براری کا

چھپا کل گوشۂ مے خانہ میں مجروحؔ نے دیکھا
یونہی شہرہ سنا تھا شیخ کی پرہیزگاری کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse