نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی
Appearance
نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی
رہی تو میری کہانی ہی یادگار رہی
وہی نظر ہے نظر جو بایں ہمہ پستی
ستارہ گیر رہی کہکشاں شکار رہی
شب بہار میں تاروں سے کھیلنے والے
کسی کی آنکھ بھی شب بھر ستارہ بار رہی
تمام عمر رہا گرچہ میں تہی پہلو
بسی ہوئی مرے پہلو میں بوئے یار رہی
کوئی عزیز نہ ٹھہرا ہمارے دفن کے بعد
رہی جو پاس تو شمع سر مزار رہی
وہ پھول ہوں جو کھلا ہو خزاں کے موسم میں
تمام عمر مجھے حسرت بہار رہی
کبھی نہ بھولیں گی اس شب کی لذتیں اخترؔ
کہ میرے سینے پہ وہ زلف مشکبار رہی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |