نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی
by آغا شاعر قزلباش

نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی
کسی کے سامنے میں بن گیا تصویر پتھر کی

خدا سے کیوں نہ مانگوں واہ میں بندوں سے کیا مانگوں
مجھے مل جائے گی جو چیز ہے میرے مقدر کی

تصور چاہئے اے شیخ سب کا ایک ایما ہے
صدا ہے پردۂ ناقوس میں اللہ اکبر کی

دل راحت طلب کو قبر میں کیا بے قراری ہے
مجھے گھبرائے دیتی ہے اداسی اس نئے گھر کی

کلیجے میں ہزاروں داغ، دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی

سنبھل کر دیکھنا آرائشوں کے بعد آئینہ
یہ آئینہ نہیں ہے اب یہ ٹکڑے ہے برابر کی

مرے اشعار شاعرؔ داغ و آصف جاہ سے پوچھو
کہ شاہ و جوہری ہی جانتے ہیں قدر گوہر کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse