نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
by انور دہلوی

نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے

ٹپکتا ہے پسینہ اس جبیں سے
ستارے جھڑتے ہیں ماہ مبیں سے

چلی آتی ہے ہونٹوں پر شکایت
ندامت ٹپکی پڑتی ہے جبیں سے

میں اس برہم مزاجی کے تصدق
الجھتے ہیں وہ زلف عنبریں سے

بصر کرتا رہا ہوں زندگانی
تا تیغ اس نگاہ شرمگیں سے

یہ کس نقش قدم پر جبہ سا ہوں
کہ سر اٹھتا نہیں اپنا زمیں سے

تمہیں ہم خواب دشمن دیکھتا ہوں
اٹھا پردہ یہ چاک آستیں سے

جہاں مدفون ہیں تیرے کشتہ ناز
یقیں ہے حشر اٹھے گا وہیں سے

نہیں کوئے عدو میں نقش پا تک
مگر وہ اڑ کے چلتے ہیں زمیں سے

جنوں میں اس غضب کی خاک اڑائی
بنایا آسماں ہم نے زمیں سے

گریباں گیر ہے یہاں شوق مردن
وہ خنجر تو نکالیں آستیں سے

کہاں کی دل لگی کیسی محبت
مجھے اک لاگ ہے جان حزیں سے

دو رنگی ایک جا ان سے نہ چھوٹی
مجھے مارا ادائے مہر و کیں سے

الٹ دے گا جہاں بسمل تڑپ کر
سنبھالو دست و پائے نازنیں سے

بجائے شمع جلتے ہیں سراپا
تمہاری بزم روشن ہے ہمیں سے

غضب ہی بے جگر تھا بسمل شوق
کہ جا لپٹا ترے فتراک زیں سے

وہ کچھ بے تابیاں بگڑے سے تیور
لڑائی میں مزا ہے اس حسیں سے

ادھر مارا ادھر مجھ کو جلایا
لب جاں بخش و چشم خشمگیں سے

نہ نکلی اس کے منہ سے آہ تک بھی
جسے مارا نگاہ شرمگیں سے

نہ دل قابو میں اور دل میں نہ اب صبر
کھینچیں کس بل پہ ہم اس خشمگیں سے

اٹھانے ایک قیامت بیٹھے ہیں وہ
غضب فتنے لگا لائے کمیں سے

کمی کی دست قاتل نے تو بسمل
بڑھائے دست و پائے نازنیں سے

ادھر لاؤ ذرا دست حنائی
پکڑ دیں چور دل کا ہم یہیں سے

اگر سچ ہے حسینوں میں تلوں
تو ہے امید وصل ان کی نہیں سے

برنگ بو نکلتے ہیں کرشمے
تمہاری نرگس سحر آفریں سے

جہنم ہے مجھے گلزار جنت
جدا ہوں ایک ازار آتشیں سے

یہ پردے ہیں با شوق دیدار
یہ ساری لن ترانی ہے ہمیں سے

جہاں کو جلوہ گاہ یار دیکھیں
جو نظارہ کریں چشم یقیں سے

مجھے کیا غم کہ بار الفت غیر
نہ اٹھے گا کبھی اس نازنیں سے

سنانیں چل رہی ہیں جان و دل پر
نگاہیں لڑ رہی ہیں اک حسیں سے

وہاں عاشق کشی ہے عین ایماں
انہیں کیا بحث انورؔ کفر و دیں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse