نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
by نظیر اکبر آبادی

نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
کوئی خوب رو لے تو ہاں بیچتا ہوں

وہ مے جس کو سب بیچتے ہیں چھپا کر
میں اس مے کو یارو عیاں بیچتا ہوں

یہ دل جس کو کہتے ہیں عرش الٰہی
سو اس دل کو یارو میں یاں بیچتا ہوں

ذرا میری ہمت تو دیکھو عزیزو
کہاں کی ہے جنس اور کہاں بیچتا ہوں

لیے ہاتھ پر دل کو پھرتا ہوں یارو
کوئی مول لیوے تو ہاں بیچتا ہوں

وہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تو ہم لیں
تو کہتا ہوں لو ہاں میاں بیچتا ہوں

میں ایک اپنے یوسف کی خاطر عزیزو
یہ ہستی کا سب کارواں بیچتا ہوں

جو پورا خریدار پاؤں تو یارو
میں یہ سب زمین و زماں بیچتا ہوں

زمیں آسماں عرش و کرسی بھی کیا ہے
کوئی لے تو میں لا مکاں بیچتا ہوں

جسے مول لینا ہو لے لے خوشی سے
میں اس وقت دونوں جہاں بیچتا ہوں

بکی جنس خالی دکاں رہ گئی ہے
سو اب اس دکاں کو بھی ہاں بیچتا ہوں

محبت کے بازار میں اے نظیرؔ اب
میں عاجز غریب اپنی جاں بیچتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse