نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
by آسی غازی پوری

نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
کرم کرے وہ نشان قدم تو پتھر پر

تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے
نظر ٹھہرتی نہیں عارض منور پر

کسی نے لی رہ کعبہ کوئی گیا سوئے دیر
پڑے رہے ترے بندے مگر ترے در پر

گناہ گار ہوں میں واعظو تمہیں کیا فکر
مرا معاملہ چھوڑو شفیع محشر پر

ان ابروؤں سے کہو کشتنی میں جان بھی ہے
اسی کے واسطے خنجر کھنچا ہے خنجر پر

پلا دے آج کہ مرتے ہیں رند اے ساقی
ضرور کیا کہ یہ جلسہ ہو حوض کوثر پر

صلاحیت بھی تو پیدا کر اے دل مضطر
پڑا ہے نقش کف پائے یار پتھر پر

وفور جوش ضیا اور ان کے دانتوں کا
حباب گنبد گردوں ہے آب گوہر پر

اخیر وقت ہے آسیؔ چلو مدینے کو
نثار ہو کے مرو تربت پیمبر پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse