نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
by نظیر اکبر آبادی

نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
کچھ اس گورے سے مکھڑے کا جھمکڑا ہی نرالا ہے

وہ مکھڑا گل سا اور اس پر جو نارنجی دوشالہ ہے
رخ خورشید نے گویا شفق سے سر نکالا ہے

کن انکھیوں کی نگہ گپتی اشارت قہر چتون کے
جو ووں دیکھا تو برچھی ہے جو یوں دیکھا تو بھالا ہے

کہیں خورشید بھی چھپتا ہے جی باریک پردے میں
اٹھا دو منہ سے پردے کو بڑا پردہ نکالا ہے

کھلے بالوں سے منہ کی روشنی پھوٹی نکلتی ہے
تمہارا حسن تو صاحب اندھیرے کا اجالا ہے

نہ جھمکیں کس طرح کانوں میں اس کے حسن کے جھمکے
ادھر بندا ادھر جھمکا ادھر بجلی کا بالا ہے

نظیرؔ اس سنگ دل قاتل پہ دعویٰ خون کا مت کر
میاں جا تجھ سے یاں کتنوں کو اس نے مار ڈالا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse