نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
by بیدم وارثی

نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ

دل آزاد کو وحشت نے بخشا ہے وہ کاشانہ
کہ اک در جانب کعبہ ہے اک در سوئے بت خانہ

بنائے میکدہ ڈالی جو تو نے پیر مے خانہ
تو کعبہ ہی رہا کعبہ نہ پھر بت خانہ بت خانہ

کہاں کا طور مشتاق لقا وہ آنکھ پیدا کر
کہ ذرہ ذرہ ہے نظارہ گاہ حسن جانانہ

خدا پوری کرے یہ حسرت دیدار کی حسرت
کہ دیکھوں اور ترے جلووں کو دیکھوں بے حجابانہ

شکست توبہ کی تقریب میں جھک جھک کے ملتی ہیں
کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشے سے پیمانہ

سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو
چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ

کبھی جو پردۂ بے صورتی میں جلوہ فرما تھے
انہیں کو عالم صورت میں دیکھا بے حجابانہ

مری دنیا بدل دی جنبش ابروئے جاناں نے
کہ اپنا ہی رہا اپنا نہ اب بیگانہ نہ بیگانہ

جلا کر شمع پروانے کو ساری عمر روتی ہے
اور اپنی جان دے کر چین سے سوتا ہے پروانہ

کسی کی محفل عشرت میں پیہم دور چلتے ہیں
کسی کی عمر کا لبریز ہونے کو ہے پیمانہ

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

یہ لفظ سالک و مجذوب کی ہے شرح اے بیدمؔ
کہ اک ہشیار ختم المرسلیں اور ایک دیوانہ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse