نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی
by نسیم بھرتپوری

نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی
دل ہی میں بات رہ گئی دل کی

گیسوئے یار میں یہ بات کہاں
اور ہی شے ہے برہمی دل کی

کھینچتے ہیں وہ تیر پہلو سے
کھوئے دیتے ہیں دل لگی دل کی

یوں وہ نکلے تڑپ کے پہلو سے
شکل آنکھوں میں پھر گئی دل کی

گھٹتی جاتی ہے ان کی مہر و وفا
بڑھتی جاتی ہے بے خودی دل کی

چھوڑ دو ان سے رسم و راہ نسیمؔ
چاہتے ہو جو بہتری دل کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse