نہ مانا میرا کہنا دل گیا کیوں داد خواہی کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ مانا میرا کہنا دل گیا کیوں داد خواہی کو
by عاشق اکبرآبادی

نہ مانا میرا کہنا دل گیا کیوں داد خواہی کو
سزا دیتے ہیں واں مجرم بنا کر بے گناہی کو

ہماری بے کسی نے چھان ڈالا ہے جہاں سارا
سوا تیرے ٹھکانا ہی نہیں ہے بے پناہی کو

قیامت میں وہ مجھ کو دیکھ کر کہتے ہیں غیروں سے
خدا کی شان ہے عاشق چلے ہیں داد خواہی کو

اڑائی خاک اس کی خوب جا کر کوہ و صحرا میں
دل وحشی نے کیا الٹے دیے چکر تباہی کو

اجڑ جائے گا جس دن کارخانہ بادہ خواروں کا
بہت روئے گا ساقی کشتیٔ مے کی تباہی کو

برا ہو رشک کا رہبر سمجھ کر دل سے جو پوچھا
عدم کا راستہ بتلا دیا گم گشتہ راہی کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse