نہ لذتیں ہیں وہ ہنسنے میں اور نہ رونے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ لذتیں ہیں وہ ہنسنے میں اور نہ رونے میں
by نظیر اکبر آبادی

نہ لذتیں ہیں وہ ہنسنے میں اور نہ رونے میں
جو کچھ مزا ہے ترے ساتھ مل کے سونے میں

پلنگ پہ سیج بچھاتا ہوں مدتوں سے جان
کبھی تو آن کے سو جا مرے بچھونے میں

مسک گئی ہے وہ انگیا جو تنگ بندھنے سے
تو کیا بہار ہے کافر کے چاک ہونے میں

کہا میں اس سے کہ اک بات مجھ کو کہنی ہے
کہوں میں جب کہ چلو میرے ساتھ کونے میں

یہ بات سنتے ہی جی میں سمجھ گئی کافر
کہ تیرا دل ہے کچھ اب اور بات ہونے میں

یہ سن کے بولی کہ ہے ہے یہ کیا کہا تو نے
پڑا ہے کیوں مجھے دنیا سے اب تو کھونے میں

تو بوڑھا مردوا اور بارہواں برس مجھ کو
میں کس طرح سے چلوں تیرے ساتھ کونے میں

نظیرؔ ایک وہ عیار سرتی ہے کافر
کبھی نہ آوے گی وہ تیرے جادو ٹونے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse