نہ فلک ہوگا نہ یہ کوچۂ قاتل ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ فلک ہوگا نہ یہ کوچۂ قاتل ہوگا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

نہ فلک ہوگا نہ یہ کوچۂ قاتل ہوگا
مرے کہنے میں کسی دن جو مرا دل ہوگا

جب نمایاں وہ سوار رہ منزل ہوگا
نہ تو میں آپ میں ہوں گا نہ مرا دل ہوگا

آدھی رات آ گئی بس بس دل بے تاب سنبھل
ہم سمجھتے ہیں جو اس کرب کا حاصل ہوگا

رخصت اے وحشت تنہائی و غربت رخصت
خوف ہی کیا ہے جو ہم راہ مرے دل ہوگا

رات کا خواب نہیں جس کی ہر اک دے تعبیر
یہ وہ ارمان ہے پورا جو بہ مشکل ہوگا

تیرا کیا ذکر ہے زنداں کی ہلے گی دیوار
نالہ کش جب کوئی پابند سلاسل ہوگا

ٹال دیں میں نے یہ کہہ کہہ کے ضدیں بچپن کی
آئنہ بھی کوئی شے ہے جو مقابل ہوگا

ڈوبنے جائے گا شاید کوئی مایوس وصال
مجمع عام سنا ہے لب ساحل ہوگا

چودھواں سال اسے دیتا ہے مژدہ عالمؔ
لے مبارک ہو کہ اب تو مہ کامل ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse