نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
by بیاں احسن اللہ خان

نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
عیش و آرام و خورد و خواب ہے تلخ

میٹھی باتیں کدھر گئیں پیارے
اب تو ہر بات کا جواب ہے تلخ

ساتھ دینا یہ بوسہ و دشنام
قند شیریں ہے اور گلاب ہے تلخ

دل ہی سمجھے ہے اس حلاوت کو
گو بہ ظاہر ترا عتاب ہے تلخ

دل سے مستوں کے کوئی پوچھے بیاں
زاہدوں کو شراب ناب ہے تلخ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse