نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی
by نظیر اکبر آبادی

نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی
نہ یاسمن میں صفائی ترے بدن کی سی

میں کیوں نہ پھولوں کہ اس گل بدن کے آنے سے
بہار آج مرے گھر میں ہے چمن کی سی

یہ برق ابر میں دیکھے سے یاد آتی ہے
جھلک کسی کے دوپٹے میں نورتن کی سی

گلوں کے رنگ کو کیا دیکھتے ہو اے خوباں
یہ رنگتیں ہیں تمہارے ہی پیرہن کی سی

جو دل تھا وصل میں آباد تیرے ہجر میں آہ
بنی ہے شکل اب اس کی اجاڑ بن کی سی

تو اپنے تن کو نہ دے نسترن سے اب تشبیہ
بھلا تو دیکھ یہ نرمی ہے تیرے تن کی سی

ترا جو پاؤں کا تلوا ہے بزم مخمل سا
صفائی اس میں ہے کہیے تو نسترن کی سی

نظیرؔ ایک غزل اس زمیں میں اور بھی لکھ
کہ اب تو کم ہے روانی ترے سخن کی سی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse