نہ رہا گل نہ خار ہی آخر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
by میر حسن دہلوی

نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
اک رہا حسن یار ہی آخر

اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر

آتش دل پہ آب لے دوڑا
دیدۂ اشک بار ہی آخر

ضد سے ناصح کی میں نے کر ڈالا
جیب کو تار تار ہی آخر

کیوں نہ ہوں تیرے در پہ ہونا ہے
ایک دن تو غبار ہی آخر

کام آیا نہ جائے شمع مزار
یہ دل داغدار ہی آخر

شمع رو پر مثال پروانہ
ہو گئے ہم نثار ہی آخر

وہ نہ آیا ادھر حسنؔ افسوس
رہ گیا انتظار ہی آخر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse