نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
by قلق میرٹھی

نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
ہو کے دشمن بھی آشنا نہ رہا

بے وفا جان و مال بے صرفہ
کیا رہا جب کہ دل ربا نہ رہا

سبھی اغیار ہیں سبھی عاشق
اعتماد اس کا ایک جا نہ رہا

خاک تھا جس چمن کی رنگ ارم
پتے پتے کا واں پتا نہ رہا

وصل میں کیا وصال مشکل تھا
یاد پر روز ہجر کا نہ رہا

خط مرا واں گیا گیا نہ گیا
سر قاصد رہا رہا نہ رہا

دل میں رہتا ہے کون غم کے سوا
کوئی اس گھر میں دوسرا نہ رہا

غیر اور شکوۂ جفا تم سے
ہائے میں قابل وفا نہ رہا

کیا ہوا کیوں قلقؔ کو روتے ہو
کوئی اس دہر میں سدا نہ رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse