نہ روتا زار زار ایسا نہ کرتا شور و شر اتنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ روتا زار زار ایسا نہ کرتا شور و شر اتنا
by صفی اورنگ آبادی

نہ روتا زار زار ایسا نہ کرتا شور و شر اتنا
الٰہی کیا کروں درد جگر اتنا جگر اتنا

بلانے کے طریقے سے بلایا کیجیے ہم کو
رہے ملحوظ خاطر کم سے کم بار دگر اتنا

وہ جتنا مجھ سے ملتے ہیں اسی ملنے میں خوبی ہے
کسی سے بھی ملے تو بس ملے ہر اک بشر اتنا

ترے ساتھ آج کیسے کیسے ظالم یاد آئے ہیں
نہ روئے تھے نہ روئیں گے کبھی ہم عمر بھر اتنا

وہی لوگ آپ کے نزدیک سچے عاشقوں میں ہیں
کہ جن کی آنکھ میں آنسو نہیں ہے شور و شر اتنا

بڑے بھولے ہیں کیا دنیا میں بھولے ایسے ہوتے ہیں
انہیں میں کیا سمجھتا ہوں نہ سمجھے عمر بھر اتنا

نہیں معشوق تو پھر کیا بلا ہیں کوئی آفت ہیں
نیا غصہ ہے ان کا آج اتنی بات پر اتنا

وہ مجھ سے کس لئے ملتے ہیں کیا معلوم لوگوں کو
سمجھتے ہوں گے سب ان پر بھی ہے اس کا اثر اتنا

ترے عاشق کی صورت اب تو پہچانی نہیں جاتی
ستاتے ہیں بھلا اس طرح ایسا اس قدر اتنا

کسی صورت یہ شان دلبری دیکھی نہیں جاتی
مری آنکھیں بھی لے جا اور اک احسان کر اتنا

کسی کو اپنی بربادی کا باعث کیا بتائیں ہم
محبت ہے بری شے جانتا ہے ہر بشر اتنا

لٹیروں کی بن آئے مجھ کو شادی مرگ ہو جائے
کہا تھا کس نے اے داتا مرے دامن کو بھر اتنا

ذرا بہر خدا انصاف کر اور بھولنے والے
تغافل شیوۂ معشوق ہوتا ہے مگر اتنا

نہیں ہے بے خودی ہی کی تمنا ہم کو اے ساقی
ترے مستوں کا صدقہ کچھ ذرا سا گھونٹ بھر اتنا

عدو ہم سے تمہارے ظلم کا شکوہ نہیں کرتے
دکھاتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی رکھتے ہیں جگر اتنا

مجھے جینے سے تم مایوس ناامید ہی رکھو
تسلی دو مگر اتنی دلاسا دو مگر اتنا

دیا خط ان کو لیکن کب دیا جب تھے وہ غصے میں
نہ سمجھا تھا پیامی کی سمجھ اتنی ہے سر اتنا

صفیؔ کیوں قدر کا طالب ہوا ہے اس زمانے میں
ارے کم بخت تیرے پاس کب ہے مال و زر اتنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse