نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
by اختر انصاری اکبرآبادی

نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
نظر والوں تمہیں کرنا ہے اب دنیا میں کیا سمجھو

طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے
قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو

یہ کیا انداز ہے اتنا گریز اہل تمنا سے
خدا توفیق دے تو اہل دل کا مدعا سمجھو

تمہارے ہر اشارے پر سر تسلیم خم لیکن
گزارش ہے کہ جذبات محبت کو ذرا سمجھو

ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا
جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو

جسے دیکھو وہی بدمست ہی مغرور ہے ہمدم
کوئی بندہ نہیں دنیا میں کس کس کو خدا سمجھو

یہاں رہبر کے پردے میں بہت رہزن ہیں اے اخترؔ
رہو دور اس سے تم جس کو وفا نا آشنا سمجھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse