نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
by ریاض خیرآبادی

نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
کٹے کیا برس زندگانی ہماری

عدو کی شب وصل سو بار صدقے
شب غم ہے کتنی سہانی ہماری

دغا دے رہے ہیں دم نزع تم کو
یہ ہے وقت رخصت نشانی ہماری

کیے میں نے شکوے تو وہ ہنس کے بولے
عدو پر بھی ہے مہربانی ہماری

انہیں نے تو دیوانہ ہم کو بنایا
وہی اب کریں پاسبانی ہماری

یہ ساقی نے ساغر میں کیا چیز دے دی
کہ توبہ ہوئی پانی پانی ہماری

ستاتے ہیں ہم بھی حسینوں کو کیا کیا
ستاتی ہے ہم کو جوانی ہماری

لگی تھی جو مے منہ سے بھر توبہ کیوں کی
ہوئی تلخ کیا زندگانی ہماری

کیا جھوٹ وعدہ کریں ہم جو تجھ سے
ترے کام آئے جوانی ہماری

بہت بے اثر تم اسے جانتے تھے
زبانوں پر اب ہے کہانی ہماری

قفس دست صیاد میں ہم قفس میں
یہ کام آئی ہے خوش بیانی ہماری

ریاضؔ آپ ہم قدرداں اپنے نکلے
کسی نے نہ کی قدردانی ہماری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse