نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
by شاہ نصیر

نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
مرے یار کو مجھ سے نہ کیجو جدا تجھے سرور ہر دوسرا کی قسم

وہ صنم کئی دن سے ہے مجھ سے خفا نہیں آتا ادھر کو خدا کی قسم
دل مشفق من اسے کھینچ تو لا تجھے جذبۂ کاہ ربا کی قسم

یہی چاہے ہے جی کہ گلے سے لگو ذرا میرے دہن سے دہن تو ملو
نہیں غرفے سے آن کے جھانک تو لو تمہیں اپنی ہے شرم و حیا کی قسم

کبھی شب کو اکیلا جو پاؤں تجھے تو گلے سے پھر اپنے لگاؤں تجھے
کبھی چھاتی پہ اپنی سلاؤں تجھے مجھے عشق کے جور و جفا کی قسم

ترے اٹھتے ہی پہلو میں درد اٹھا ترے جاتے ہی دم یہ عدم کو چلا
مجھے چھوڑ کے آہ تو گھر کو نہ جا تجھے اپنے ہی فندق پا کی قسم

مجھے بہر خدا کہیں اس سے چھڑا ترے ہجر کی شب ہے یہ کالی بلا
نہیں جھوٹ میں کہتا کچھ اس میں ذرا مجھے تیری ہی زلف دوتا کی قسم

اجی دیکھو تو کیسی اٹھی ہے گھٹا یہی عیش کا دن ہے اڑا لے مزا
کرو بادہ کشی مرے ماہ لقا تمہیں دیتا ہوں ابر و ہوا کی قسم

اجی جاتی ہے آج تو وصل کی شب نہیں کیوں ہے ملایا لبوں سے یہ لب
مجھے اب تو اڑانے دے عیش تو اب تجھے اپنے ہے مہر و وفا کی قسم

لگے تیری بلا مجھے آفت جاں کبھو پھر بھی یہ کہہ کے کھلائے گا پاں
مرے سر کی قسم مری جاں کی قسم مرے غمزہ و ناز و ادا کی قسم

مریں غیر پہ آپ میں تم پہ مروں مجھے کیا ہے غرض کہو کیوں میں جلوں
یہی جی میں ہے تم سے نہ بات کروں مجھے اپنی اس آہ رسا کی قسم

کسے دیکھوں کہو لگوں کس کے گلے شب وصل میں مجھ سے جو تو یہ کہے
کہ یہ بادۂ سرخ تو پی لے تجھے مرے ہاتھوں کے رنگ حنا کی قسم

کہاں جاتا ہے منہ کو چھپائے ہوئے ترے ہجر میں جاتے ہیں ہم تو مرے
کبھی مڑ کے ادھر کو بھی دیکھ تو لے تجھے حضرت شیر خدا کی قسم

سنو سیری نہ ہو مجھے کھاؤ اجی مجھے پیٹو جو مجھ کو گراؤ اجی
مرے گھر سے نہ آج تو جاؤ اجی تمہیں میری ہی شب کی بکا کی قسم

مرے بچھڑے کو مجھ سے ملاؤ کوئی مرے روٹھے کو لا کے مناؤ کوئی
ارے یارو تم اس کو بلاؤ کوئی تمہیں خالق ارض و سما کی قسم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse