نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل
by بہادر شاہ ظفر

نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل
تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل

دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل
نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل

نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے
جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل

برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بدگوئی سے کیا حاصل

نہ کر فکر خضاب اے شیخ تو پیری میں جانے دے
جواں ہونا نہیں ممکن سیہ روئی سے کیا حاصل

چڑھائے آستیں خنجر بکف وہ یوں جو پھرتا ہے
اسے کیا جانے ہے اس عربدہ جوئی سے کیا حاصل

عبث پنبہ نہ رکھ داغ دل سوزاں پہ تو میرے
کہ انگارے پہ ہوگا چارہ گر روئی سے کیا حاصل

شمیم زلف ہو اس کی تو ہو فرحت مرے دل کو
صبا ہووے گا مشک چیں کی خوشبوئی سے کیا حاصل

نہ ہووے جب تلک انساں کو دل سے میل یک جانب
ظفرؔ لوگوں کے دکھلانے کو یکسوئی سے کیا حاصل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse