نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
Appearance
نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھو جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں
میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے
حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں
موافقت کی بہت شہریوں سے میں لیکن
وہی غزال ابھی رم رہا ہے آنکھوں میں
وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے اشک نکل تھم رہا ہے آنکھوں میں
بسان اشک ہے قائمؔ تو جب سے آوارہ
وقار تب سے ترا کم رہا ہے آنکھوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |