نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
by قائم چاندپوری

نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھو جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں

میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے
حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں

موافقت کی بہت شہریوں سے میں لیکن
وہی غزال ابھی رم رہا ہے آنکھوں میں

وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے اشک نکل تھم رہا ہے آنکھوں میں

بسان اشک ہے قائمؔ تو جب سے آوارہ
وقار تب سے ترا کم رہا ہے آنکھوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse