نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا
by شاد عظیم آبادی

نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا
ہم اپنا جانتے ہر چیز کو ہوتا جو یار اپنا

جمے کس طرح اس حیرت کدے میں اعتبار اپنا
نہ دل اپنا نہ جان اپنی نہ ہم اپنے نہ یار اپنا

حقیقت میں ہمیں کو جب نہیں خود اعتبار اپنا
غلط سمجھی اگر سمجھی ہے تن کو جان زار اپنا

کہیں ہے دام ارماں کا کہیں دانے امیدوں کے
اجل کرتی ہے کس کس گھات سے ہم کو شکار اپنا

الٰہی خیر ہو اب کے بہار باغ نے پھر بھی
جمایا بے طرح بلبل کے دل پر اعتبار اپنا

جو مے کو ڈھال بھی لیں ہم تو ساقی کے اشارے پر
نہیں اس کے علاوہ مے کدے میں اختیار اپنا

اگر قاصد حقیقت میں پیام وصل لایا ہے
تو کیوں آنسو بھرے منہ دیکھتا ہے غم گسار اپنا

ضرورت کیا کسی کو اس طرف ہو کر گزرنے کی
الگ اے بیکسی بستی سے ہے کوسوں مزار اپنا

معاذ اللہ فرقت کی ہیں راتیں قبر کی راتیں
ابھی سے یاں ہوا جاتا ہے سن سن کر فشار اپنا

گلوں کی سرخ رنگت جسم میں لوکے لگاتی ہے
دکھاتی ہے تماشا کس کی آنکھوں کو بہار اپنا

خطر کیا کشتئ مے کو بھلا موج حوادث کا
نہ بیڑا پار ہو کیونکر کہ خود ساقی ہے یار اپنا

چھپا لے گا کسی دن عرش تک کو اپنے دامن میں
دکھا دے گا تماشا پھیل کر مشت غبار اپنا

خبر کیا غیب کی غم خوار کو اور یاں یہ عالم ہے
کہا جاتا نہیں اپنی زباں سے حال زار اپنا

نہیں کرتا گوارا راہ رو کے دل پہ میل آنا
اڑا کرتا ہے رستہ سے الگ ہٹ کر غبار اپنا

دم آیا ناک میں فریادیوں کے شور و غوغا سے
قیامت میں عبث کیوں کھینچ لایا انتشار اپنا

ہم اک مہماں ہیں ہم سے دوستی کرنے کا حاصل کیا
نہیں کچھ اس جہاں میں اے شب غم اعتبار اپنا

کچھ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں
ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse