نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
by بہادر شاہ ظفر

نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا

کتابوں میں دھرا ہے کیا بہت لکھ لکھ کے دھو ڈالیں
ہمارے دل پہ نقش کالجحر ہے تیرا فرمانا

غنیمت جان جو دم گزرے کیفیت سے گلشن میں
دئیے جا ساقی پیماں شکن بھر بھر کے پیمانا

نہ دیکھا وہ کہیں جلوہ جو دیکھا خانۂ دل میں
بہت مسجد میں سر مارا بہت سا ڈھونڈا بت خانا

کچھ ایسا ہو کہ جس سے منزل مقصود کو پہنچوں
طریق پارسائی ہووے یا ہو راہ رندانا

یہ ساری آمد و شد ہے نفس کی آمد و شد پر
اسی تک آنا جانا ہے نہ پھر جانا نہ پھر آنا

ظفرؔ وہ زاہد بے درد کی ہو حق سے بہتر ہے
کرے گر رند درد دل سے ہاو ہوئے مستانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse