نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
Appearance
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
گریباں چاک ہوں گاہے اڑاتا خاک ہوں گاہے
لیے پھرتی مجھے وحشت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ابھی ہیں وہ مرے ہم دم ابھی ہو جائیں گے دشمن
نہیں اک وضع پر صحبت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
جو شکل شیشہ گریاں ہوں تو مثل جام خنداں ہوں
یہی ہے یاں کی کیفیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
کسی وقت اشک ہیں جاری کسی وقت آہ اور زاری
غرض حال غم فرقت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
کوئی دن ہے بہار گل پھر آخر ہے خزاں بالکل
چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ظفرؔ اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |