نہ جاں بازوں کا مجمع تھا نہ مشتاقوں کا میلا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ جاں بازوں کا مجمع تھا نہ مشتاقوں کا میلا تھا
by شاد عظیم آبادی

نہ جاں بازوں کا مجمع تھا نہ مشتاقوں کا میلا تھا
خدا جانے کہاں مرتا تھا میں جب تو اکیلا تھا

گھروندا یوں کھڑا تو کر لیا ہے آرزوؤں کا
تماشا ہے جو وہ کہہ دیں کہ میں اک کھیل کھیلا تھا

بہت سستے چھٹے اے موت بازار محبت میں
یہ سودا وہ ہے جس میں کیا کہیں کیا کیا جھمیلا تھا

اگر تقدیر میں ہوتا تو اک دن پار بھی لگتا
یہ دریا جھیلنے کو یوں تو اے دل خوب جھیلا تھا

ہمیشہ حسرت دیدار پہ دل نے قناعت کی
بڑے در کا مجاور تھا بڑے مرشد کا چیلا تھا

کہاں دل اور فسون عشق کی گھاتیں کہاں یا رب
نہ پڑتا تھا بلاؤں میں ابھی کم بخت انیلا تھا

جہاں چاہے لگے جس دل کو چاہے چور کر ڈالے
زباں سے پھینک مارا بات تھی ناصح کہ ڈھیلا تھا

تماشا گاہ دنیا میں بتاؤں کیا امیدوں کی
تن تنہا تھا میں اے شادؔ اور ریلوں پہ ریلا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse