نہ جانے قافلے پوشیدہ کس غبار میں ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ جانے قافلے پوشیدہ کس غبار میں ہیں
by اختر انصاری اکبرآبادی

نہ جانے قافلے پوشیدہ کس غبار میں ہیں
کہ منزلوں کے چراغ اب تک انتظار میں ہیں

بچا بچا کے گزرنا ہے دامن ہستی
شریک خار بھی کچھ جشن نو بہار میں ہیں

کسی جدید تلاطم کا انتظار نہ ہو
سنا تو ہے کہ سفینے ابھی قرار میں ہیں

پکارتے ہیں کہ دوڑو گزر نہ جائے یہ دور
چراغ بجھتے ہوئے سے جو رہ گزار میں ہیں

ابھی تو دور ہے منزل یہ قافلوں کے ہجوم
ابھی تو مرحلۂ جبر و اختیار میں ہیں

ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی
ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں

نکھر نکھر کے جو مسموم کر رہے ہیں فضا
کچھ ایسے پھول بھی اخترؔ نئی بہار میں ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse