نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا
by ریاض خیرآبادی

نہ تارے افشاں نہ کہکشاں ہے نمونہ ہنستی ہوئی جبیں کا
کھلا ہے پرچم گڑا ہے جھنڈا فلک پر اس آہ آتشیں کا

رہے ہیں گھل مل کے کیسے دونوں یہ ایک ہیں دل کے کیسے دونوں
چھٹا جو ہم سے کسی کا دامن تو ساتھ ہے اشک و آستیں کا

جو ایک ہو تو ہم اس کو روئیں ہوئے ہیں دشمن بدن کے روئیں
ہمیں تو ہر تار آستیں پر گمان ہے مار آستیں کا

جو رنگ ان کا بدل چلا ہے تو شوق اب ہے نہ ولولہ ہے
بہت ہی نازک معاملہ ہے وصال معشوق نازنیں کا

چڑھی ہے کچے گھڑے کی ایسی بندھی ہے یہ دھن ہمیں بھی ساقی
چکھائیں واعظ کو آج ہم بھی ذرا مزا شہد و انگبیں کا

تمہارے انکار نے چبھوئے ہمارے دل میں ہزاروں نشتر
تم ایسے نازک کہ نقش بن کر رہا لبوں پر نشاں نہیں کا

جو چھینٹیں اڑ کر پڑیں خدایا وہ اور محشر کریں گی برپا
ہے میری گردن پر اور الٹا یہ خون قاتل کی آستیں کا

کلی نہ دامن کی مسکرائے نہ آستیں تیری گل کھلائے
میں صدقے قاتل نہ رنگ لائے یہ خون دامن کا آستیں کا

ریاضؔ معشوق ماہ پیکر کوئی نہ کوئی ہے جلوہ گستر
کہ شام آئی ہے جو مرے گھر وہ چاند لائی ہے چودھویں کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse