نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات
by سخی لکھنوی

نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات
نہ کھلواؤ کہ چھوٹا منہ بڑی بات

سنو تو گوہر دنداں کی تعریف
ابھی ہو جائے موتی کی لڑی بات

بڑے اندھیر کی تزئین ہے آج
نہ ہونے دے گی مسی کی دھڑی بات

جہاں اغیار ان کے پاس بیٹھے
وہیں بس ہو گئی کوئی گھڑی بات

پیام وصل پر وہ ہو گئے ترش
غضب آیا کھٹائی میں پڑی بات

ہم ان سے آج کا شکوہ کریں گے
اکھاڑیں گے وہ برسوں کی گڑی بات

طبیعت ان کی ہے کچھ اکھڑی اکھڑی
کسی نے پھر وہاں میری جڑی بات

یہ کس مژگاں کی برچھی کا تھا مذکور
انی ہو کر کلیجہ میں اڑی بات

سخیؔ وہ یوں تو بولیں گے نہ ہم سے
کبھی ہو جائے گی دھوکھے دھڑی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse