نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
by مضطر خیرآبادی

نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
بڑے وہ ہو کہ تم نے اچھا اچھا کر کے دن کاٹے

اکیلے کیا تمہیں نے سختیاں جھیلیں جدائی کی
نہیں ہم نے بھی پتھر کا کلیجا کر کے دن کاٹے

بتا مجھ کو طریقہ اے شب غم سال کٹنے کا
کوئی بارہ مہینے تیس دن کیا کر کے دن کاٹے

جسے اپنا سمجھتے تھے وہی دل ہو گیا ان کا
کوئی دنیا میں اب کس کا بھروسا کر کے دن کاٹے

قضا بھی آ گئی لیکن نہ آنا تھا نہ آئے وہ
یہ میں نے عمر بھر کس کی تمنا کر کے دن کاٹے

تمہارا کیا کھلے بندوں رہے چاہے جسے دیکھا
کمال اس نے کیا مضطرؔ کہ پردا کر کے دن کاٹے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse