نہ برق نہ شعلہ نے شرر ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ برق نہ شعلہ نے شرر ہوں
by میر اثر

نہ برق نہ شعلہ نے شرر ہوں
جو کہئے سو قصہ مختصر ہوں

جوں عکس میرا کہاں ٹھکانا
تیرے جلوے سے جلوہ گر ہوں

اے نقش قدم رہ فنا میں
میں تجھ سے ٹک ایک پیشتر ہوں

یہ خیر ہے خیر محض ہے تو
بندہ گندہ جو میں بشر ہوں

معلوم ہوئی نہ کچھ حقیقت
میں کیا ہوں کون ہوں کدھر ہوں

اے عمر بہ باد رفتہ لے چل
میں بھی تیرے ہی ہم سفر ہوں

جوں شعلہ میان بے قراری
قائم اپنے قرار پر ہوں

ہوں نالۂ نارسا ولیکن
اپنے حق میں تو کارگر ہوں

آتے ہیں نظر سبھی ہنر مند
میں ہی ایک صاف بے ہنر ہوں

ہوں تیر بلا کا میں نشانا
شمشیر جفا کا میں سپر ہوں

لینا مری خیر خبر تو خیر دلا
غافل ہوں نپٹ ہی بے خبر ہوں

بھولے بھی کبھو نہ یاد کرنا
بار خاطر میں اس قدر ہوں

ہوں لغو میں آپ اپنی ذاتوں
اوروں کا نفع نے ضرر ہوں

تیرے دامن سے لگ رہا ہوں
اپنی تر دامنی سے تر ہوں

درد کی ذات پاک کا ہے
گو عین نہیں ولے اثرؔ ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.