نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض
by میر حسن دہلوی

نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض
ہے بھی جو کچھ غرض تو ہمیں یار سے غرض

پھرتے ہیں ہم تو دید کو تیرے ہی در پہ کچھ
رستے سے ہے نہ کام نہ بازار سے غرض

کہنے سے کیا کسی کے کوئی کچھ کہا کرے
ہم کو تو ایک اس کی ہے گفتار سے غرض

جی ان دنوں میں آپ سے بھی ہے خفا ولیک
بیزار جو نہیں ہے تو دل دار سے غرض

پھر پھر کے آج پوچھتے ہو دل کا حال کیوں
ہے خیر تم کو کیا دل بیمار سے غرض

آنے کا وعدہ کر کہ نہ کر ہم کو اب ترے
اقرار سے نہ کام نہ انکار سے غرض

ہم کو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہیں
تجھ کو اگر ہمارے نہیں پیار سے غرض

سر رشتہ جس کے ہاتھ لگا عشق کا اسے
تسبیح سے نہ شوق نہ زنار سے غرض

دیں دار جو رکھے نہ حسنؔ مجھ سے کام تو
کافر ہوں میں بھی رکھوں جو دیں دار سے غرض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse