نہ اپنے بس میں ہے رونا نہ ہائے ہنس دینا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ اپنے بس میں ہے رونا نہ ہائے ہنس دینا
by صفی اورنگ آبادی

نہ اپنے بس میں ہے رونا نہ ہائے ہنس دینا
کوئی رلائے تو رونا ہنسائے ہنس دینا

وہ باتوں باتوں میں بھر آنا اپنی آنکھوں کا
وہ اس کا دیکھ کے صورت کو ہائے ہنس دینا

کسی کے ظلم ہیں کچھ ایسے بے محل ہم پر
کہ جی میں آتا ہے رونے کی جائے ہنس دینا

وہ خود ہنسائے تو کم بخت دل ضدیلے دل
یہ وضع داری ہے کیوں ہائے ہائے ہنس دینا

عدول حکمئ درد جگر کہ اب اے چشم
جو لاکھ بار وہ اٹھ کر رلائے ہنس دینا

کوئی جو تجھ پہ ہنسے برق پاش عالم سوز
تو پھر ہر ایک پہ تو بھول جائے ہنس دینا

وہ ہم سے پوچھتے ہیں تم ہمارے عاشق ہو
جواب کیا ہے اب اس کے سوائے ہنس دینا

صفیؔ کہاں کی شکایت کہاں کا غم غصہ
کسی کا عین لڑائی میں ہائے ہنس دینا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse