نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
Appearance
نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا
شمیمِ زلف یہی ہے تو وحشتِ دل نے
کب انتظار کیا موسمِ ریاحیں کا
بناتِ نعش نے کس واسطے بٹھا رکھیں
نہیں ستارہ گہر خاندانِ پرویں کا
ازل کو دیکھتے ہی ہم سخن کو سمجھے تھے
کہ مشتری نہیں اس گوہرِ نو آئیں کا
نما نما ہے نہایت خلافِ شیوۂ عشق
غلط ہے شوق ہمیں گریہ ہائے رنگیں کا
وہ طرفہ حال کہ جس سے جماد رقص کرے
نہ رنگ بھی متغیر ہو اہلِ تمکیں کا
ہزار مرتبہ فرہاد جانِ شیریں دے
وہی ہے حقِ نمک عشوہ ہائے شیریں کا
عجیب حال میں ہے شیفتہ معاف کرو
جو کچھ قصور بھی ہو اس غلامِ دیریں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |