نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
by بیخود دہلوی

نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
شب وعدہ وہ دل میں درد فرقت بن کے آتے ہیں

پریشاں زلف منہ اترا ہوا محجوب سی آنکھیں
وہ بزم غیر سے عاشق کی صورت بن کے آتے ہیں

بنے ہیں شیخ صاحب نقل مجلس بزم رنداں میں
جہاں تشریف لے جاتے ہیں حضرت بن کے آتے ہیں

نہ رکھنا ہم سے کچھ مطلب یہ پہلی شرط ہے ان کی
وہ جس کے پاس آتے ہیں امانت بن کے آتے ہیں

ستم کی خواہشیں بیخودؔ غضب کی آرزوئیں ہیں
جوانی کے یہ دن شاید مصیبت بن کے آتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse