نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
by ریاض خیرآبادی

نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا
مرے عمر بھر اور مرنا نہ آیا

یہ دل کی تڑپ کیا لحد کو ہلاتی
تمہیں قبر پر پاؤں دھرنا نہ آیا

نمکداں کئے تم نے گو لاکھ خالی
نمک تم کو زخموں میں بھرنا نہ آیا

یہی دن تھے سو سو طرح تم سنورتے
جوانی تو آئی سنورنا نہ آیا

دباتا تھا کافر حسینوں کا جوبن
مرے داغ دل کو ابھرنا نہ آیا

تری تیغ کیا کیا نہائی لہو میں
تری طرح لیکن نکھرنا نہ آیا

سنا کر وہ کہتے ہیں کس بھولے پن سے
ہمیں وعدہ کر کے مکرنا نہ آیا

بنے پنکھڑی نقش پا کب لحد پر
تجھے اے صبا گل کترنا نہ آیا

ریاضؔ اپنی قسمت کو اب کیا کہوں میں
بگڑنا تو آیا سنورنا نہ آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse