نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
by ثاقب لکھنوی

نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
زمانہ نام گزرنے کا ہے گزرتا ہے

وہ میری جان کا دشمن سہی مگر صیاد
مری کہی ہوئی باتوں پہ کان دھرتا ہے

ہمیں ہیں وہ جو امید فنا پہ جیتے ہیں
زمانہ زندگیٔ بے بقا پہ مرتا ہے

ابھی ابھی در زنداں پہ کون کہتا تھا
ادھر سے ہٹ کے چلو کوئی نالے کرتا ہے

وہی سکوت سے اک عمر کاٹنے والا
جو سننے والا ہو کوئی تو کہہ گزرتا ہے

حریف بزم میں چھیڑا کریں مگر ثاقبؔ
وہ دل جو بیٹھ گیا ہو کہیں ابھرتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse