نہ آئے سامنے میرے اگر نہیں آتا
Appearance
نہ آئے سامنے میرے اگر نہیں آتا
مجھے تو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
بلا اسے بھی تو کہتے ہیں لوگ عالم میں
عجب ہے کس لیے وہ میرے گھر نہیں آتا
وہ میرے سامنے طوبیٰ کو قد سے ماپ چکے
انہوں کے نام خدا تا کمر نہیں آتا
نہ بے خطر رہو مجھ سے کہ درد مندوں کے
لبوں پہ نالہ کوئی بے خطر نہیں آتا
ڈرا دیا ہے کسی نے اسے مگر عارفؔ
مرے خرابے کی جانب خضر نہیں آتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |