نہیں یہ فکر کوئی رہبر کامل نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں یہ فکر کوئی رہبر کامل نہیں ملتا
by مجاز لکھنوی

نہیں یہ فکر کوئی رہبر کامل نہیں ملتا
کوئی دنیا میں مانوس مزاج دل نہیں ملتا

کبھی ساحل پہ رہ کر شوق طوفانوں سے ٹکرائیں
کبھی طوفاں میں رہ کر فکر ہے ساحل نہیں ملتا

یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے
یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا

شکستہ پا کو مژدہ خستگان راہ کو مژدہ
کہ رہبر کو سراغ جادۂ منزل نہیں ملتا

وہاں کتنوں کو تخت و تاج کا ارماں ہے کیا کہیے
جہاں سائل کو اکثر کاسۂ سائل نہیں ملتا

یہ قتل عام اور بے اذن قتل عام کیا کہئے
یہ بسمل کیسے بسمل ہیں جنہیں قاتل نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse