نہیں یاں بیٹھتے جو ایک دم تم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں یاں بیٹھتے جو ایک دم تم
by نظیر اکبر آبادی

نہیں یاں بیٹھتے جو ایک دم تم
تو کیا ڈرتے ہو ہم سے اے صنم تم

ہنسو بولو ملو بیٹھو بھلا جی
نہیں کیا عاشق و معشوق ہم تم

جو یاں آیا کبھی چاہو تو بے خوف
ادھر لایا کرو اپنا قدم تم

نہایت سادہ دل ہیں ہم تو اے جاں
نہ سمجھو ہم میں ہرگز پیچ و خم تم

سنا جب یہ نظیرؔ اس نے تو ہنس کر
کہا یہ تو ہمیں دیتے ہو دم تم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse