نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
by مرزا غالب

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں

ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی
کف سیلاب باقی ہے بہ رنگ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بیداد کاوش‌ ہاۓ مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دوں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں

ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پرافشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں

ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں

اسدؔ زندانی تاثیر الفت ‌ہاۓ خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم جوہر تیغ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل
سویدا داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں

دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں

نکوہش مانع دیوانگی ہائے جنوں آئی
لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse