نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی
by نظیر اکبر آبادی

نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی
لپٹ ہے یہ تو کسی زلف پر شکن کی سی

میں ہنس کے اس لیے منہ چومتا ہوں غنچہ کا
کہ کچھ نشانی ہے اس میں ترے دہن کی سی

خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

ہزار تن کے چلیں بانکے خوب رو لیکن
کسی میں آن نہیں تیرے بانکپن کی سی

مجھے تو اس پہ نہایت ہی رشک آتا ہے
کہ جس کے ہاتھ نے پوشاک تیرے تن کی سی

کہا جو تم نے کہ منکا ڈھلا تو آؤں گا
ہے بات کچھ نہ کچھ اس میں بھی مکر و فن کی سی

وگرنہ سچ ہے تو اے جان اتنی مدت میں
یہی بس ایک کہی تم نے میرے من کی سی

وہ دیکھ شیخ کو لاحول پڑھ کے کہتا ہے
"یہ آئے دیکھیے داڑھی لگائے سن کی سی"

کہاں تو اور کہاں اس پری کا وصل نظیرؔ
میاں تو چھوڑ یہ باتیں دوانے پن کی سی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse